Headlines
Loading...
کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟

کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟

Question S. No. #07

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کہ بارے میں کہ زید نے حالت روزہ میں کان کے اندر دوا ڈالا تو کیا روزہ ٹوٹ جائے گا مع حوالہ بیان کریں۔

المستفتی: محمد عرفان رضا قادری

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

کان میں دوا یا تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے ۔

ہمارے مذہب حنفی کے متون و شروح اور فتاویٰ سب میں اس کی صراحت موجود ہے.

کتاب الاصل للامام محمد میں ہے:

قال أبو حنيفة : السعوط و الحقنة في شهر رمضان يوجبان القضاء ولا كفارة عليه وكذلك ما اقطر في اذنه.

(امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله نے فرمایا: رمضان کے مہینے میں ناک میں دوا چڑھانے اور حقنہ لینے سے روزے کی قضا واجب ہوجاتی ہے، اس پر کفارہ نہیں، یہی حکم کان میں دوا یا تیل ڈالنے کا بھی ہے)

[محمد بن الحسن الشيباني ,الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني ,2/212، ادارة القرآن والعلوم الاسلامية، كراتشي]

ھدایہ میں ہے:

أو أقطر في أذنه أفطر [المَرْغِيناني ,الهداية في شرح بداية المبتدي ,1/123]

اسی طرح قدوری، بدایہ، وقایہ کنز وغیرہا متون فقہ حنفی اور شروح جیسے مبسوط امام سرخسی، فتح القدیر، بنایہ، بدائع الصنائع، مجمع الانھر اور درمختار وغیرھا میں ہے۔

محقق علی الاطلاق امام ابن الھمام فتح القدیر میں صوم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"والصوم لغةً: هو الامساك مطلقا، وفي الشرع : امساك عن الجماع و عن ادخال شيء بطنا [او ما] له حكم الباطن، من الفجر الى الغروب عن نية"

(فتح القدير ج ٢ ص ٣٠٦-٣٠٧ ،ناشر بركات رضا، پور بندر گجرات، و کذا فی منحة الخالق حاشية بحر الرائق ، ج ٢ ص ٤٥٣ ، دار الكتب العلمية بيروت)

(یعنی روزہ لغت میں مطلقا رک جانے، باز رہنے کو کہتے ہیں اور شرعا طلوع فجر سے غروب آفتاب تک جماع سے، اور کسی چیز کو بطن میں یا جو باطن کے حکم میں ہے اس میں داخل کرنے سے باز رہنے کا نام روزہ ہے)

الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے شعبہ، مجلس شرعی کے فقہی سیمینار کے فیصلے بنام "مجلس شرعی کے فیصلے" صفحہ ٢٨٦ پر ہے:

" کان کا اندرونی حصہ خود جوف اور باطن کا حکم رکھتا ہے، اس لیے اس میں دوا کا جانا مفسد (صوم) ہے"

مجلس شرعی کے فیصلے میں آگے امام محمد رحمہ الله کا موقف محیط برھانی سے نقل فرمایا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ کان ایک مستقل جوف ہے، محیط برھانی کی عبارت حسب ذیل ہے:

وفي الإقطار في الأذن لم يشترط محمد رحمه الله الوصول إلى الدماغ حتى قال مشياخنا: إذا غاب في أذنه كفى ذلك لوجوب القضاء، [ابن مَازَةَ، المحيط البرهاني في الفقه النعماني، ٣٨٣/٢]

مزید تفصیل کے لیے " مجلس شرعی کے فیصلے " کا مطالعہ کریں۔ والله تعالیٰ اعلم
کتبہ: محمد شہباز انور البرکاتی المصباحی
۸ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.