Headlines
Loading...
مسافر جمعہ کی نماز کی امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟

مسافر جمعہ کی نماز کی امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟

Question S. No. #04

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ مسافر جمعہ کے نماز کی امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟

مفصل شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہو گی۔
سائل: محمد صغیر احمد رضوی
کیج، ضلع بیڑ (مہاراشٹر)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب: مسافر امام اگر نماز جمعہ کی امامت کرتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز بلا کراہت ہو جائے گی، کہ امامت جمعہ کے لیے مقیم ہونا شرط نہیں، جس طرح مقیم شخص کے لیے امامت کے شرائط پائے جانے کی صورت میں نماز جمعہ کی امامت درست ہے، اسی طرح مسافر کے لیے بھی درست ہے۔

عالمگیری میں ہے :

وَيَجُوزُ لِلْمُسَافِرِ وَالْعَبْدِ وَالْمَرِيضِ أَنْ يَؤُمُّوا فِي الْجُمُعَةِ، كَذَا فِي الْقُدُورِيِّ. [مجموعة من المؤلفين، الفتاوى الهندية، ١٤٨/١]

قدوری کی شرح لباب میں ہے :

(ويجوز للمسافر والعبد والمريض ونحوهم) خلا امرأة (أن يؤم في الجمعة) لأن عدم وجوبها عليهم رخصة لهم دفعاً للحرج؛ فإذا حضروا تقع فرضاً. [اللباب في شرح الكتاب، ١١٢/١]

البحر الرائق میں ہے :

(قَوْلُهُ وَلِلْمُسَافِرِ وَالْعَبْدِ وَالْمَرِيضِ أَنْ يَؤُمَّ فِيهَا) أَيْ فِي الْجُمُعَةِ [البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري، ١٦٤/٢]

در مختار میں ہے :

(ويصلح للامامة فيها من صلح لغيرها، فجازت لمسافر وعبد ومريض، وتنعقد) الجمعة (بهم) أي بحضورهم [الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار، صفحة ١١٠]

ہدایہ شریف میں ہے :

ويجوز للمسافر والعبد والمريض أن يؤم في الجمعة [المَرْغِيناني، الهداية في شرح بداية المبتدي، ٨٣/١]

مجمع الانہر میں ہے :

(وَالْمُسَافِرُ وَالْمَرِيضُ وَالْعَبْدُ أَنْ يَؤُمَّ فِيهَا) أَيْ الْجُمُعَةِ لِأَنَّ عُذْرَ الْحَرَجِ لَمَّا زَالَ بِحُضُورِهِمْ وَقَعَتْ جُمُعَتُهُمْ فَرْضًا فَتَصِحُّ الِاقْتِدَاءُ بِهِمْ لِكَوْنِهِمْ أَهْلًا لِلْإِمَامَةِ [مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، ١٧٠/١]

یہاں بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسافر پر جمعہ فرض نہیں لہذا امامت بھی نہیں کر سکتا، حالانکہ یہ درست نہیں کیونکہ مسافر پر جمعہ اگرچہ فرض نہیں مگر ادا کرنے کی صورت میں اس کا جمعہ صحیح ہو جاتا ہے۔

مسافر کو دفع حرج کی وجہ سے جمعہ نہ پڑھنے کی رخصت و اجازت ہے مگر بطور عزیمت پڑھنے کی بھی اجازت ہے کہ اگر پڑھتا ہے تو ادا ہو جائے گا، یہ اسی طرح ہے کہ مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے مگر رکھ لینے کی صورت میں اس کا روزہ صحیح ہو جاتا ہے جیسا کہ البحر الرائق میں ہے :

(قَوْلُهُ، وَمَنْ لَا جُمُعَةَ عَلَيْهِ إنْ أَدَّاهَا جَازَ عَنْ فَرْضِ الْوَقْتِ) ؛ لِأَنَّهُمْ تَحَمَّلُوهُ فَصَارُوا كَالْمُسَافِرِ إذَا صَامَ [البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري، ١٦٤/٢]

تبیین الحقائق میں ہے :

قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ (وَمَنْ لَا جُمُعَةَ عَلَيْهِ إنْ أَدَّاهَا جَازَ عَنْ فَرْضِ الْوَقْتِ)؛ لِأَنَّ السُّقُوطَ لِأَجْلِهِ تَخْفِيفًا فَإِذَا تَحَمَّلَهُ جَازَ عَنْ فَرْضِ الْوَقْتِ كَالْمُسَافِرِ إذَا صَامَ [تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي، ٢٢١/١]

مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے :

"ومن لا جمعة عليه" كمريض ومسافر ورقيق وامرأة وأعمى ومقعد "إن أداها جاز عن فرض الوقت" لأن سقوط الجمعة عنه للتخفيف عليه فإذا تحمل ما لم يكلف به وهو الجمعة جاز عن ظهره كالمسافر إذا صام [مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، صفحة ١٩٨]

مجمع الانہر میں ہے :

(وَمَنْ لَا جُمُعَةَ عَلَيْهِ إنْ أَدَّاهَا أَجْزَأَتْهُ عَنْ فَرْضِ الْوَقْتِ) لِأَنَّ السُّقُوطَ لِلتَّخْفِيفِ فَصَارَ كَالْمُسَافِرِ إذَا صَامَ [مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، ١٧٠/١]

واللہ تعالیٰ اعلم

كتبہ:
بلال رضا عطاری
متعلم: جامعۃ المدینہ نیپال
تاریخ: ٢٧ جمادی الاخری ١٤٤٢ھ

الجواب صحیح: مفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.