Headlines
Loading...
نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم

نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم

Question S. No. #111

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک ایپ ہے جس میں کچھ چیزیں خرید کر بیچیں جاتی ہیں، شروع میں 5 سو روپے جمع کروانے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ اور بندوں کو اپنے لنک کے ذریعہ اس ایپ میں شامل کرنے سے بھی پیسے ملتے ہیں، کیا ایسا کام کرنا جائز ہے؟

المستفتی: محمد عاصم قادری

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

اجمالی جواب

یہ کام کرنا ناجائز و حرام ہے اس لیے کہ اس میں غبن فاحش، جوۓ بازی، کم دام کی اشیاء کو اونچے دام کی بتا کر دھوکا دینا اور ممبر سازی کے لیے لوگوں کو بڑے بڑے فائدے بتا کر سبز باغ دکھانا پایا جاتا ہے اور یہ سب باتیں ناجائز و حرام ہیں۔

تفصیلی جواب

یہ نیٹ ورک مارکیٹنگ یا ملٹی لیول مارکیٹنگ کی صورت ہے، جس کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ممبر بننے والوں سے ایک فارم برائے رجسٹریشن ممبری پر کراتی ہے اور ساتھ ہی ایک مقررہ مقدار میں روپے بھی وصول کرتی ہے اور مزید اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اگر ایک ممبر اپنے ما تحت اور ممبر بناتا ہے تو اسے اس پر بھی کمیشن ملے گا۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بیع بہ شرط اجارہ یا اجارہ بہ شرط بیع پایا جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے، اس کے علاوہ اس میں غبن فاحش، جوے بازی،کم دام کی اشیاء کو اونچے دام کی بتا کر دھوکا دینا، ممبر سازی کے لیے لوگوں کو بڑے بڑے فائدے بتا کر سبز باغ دکھانا بھی پایا جاتا ہے؛لہذا ان مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے یہ ناجائز و حرام ہے۔

مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے:

اب سوال یہ ہے کہ یہ کاروبار فقہی اصطلاح کی رو سے کون سا عقد کہلاۓ گا اور شرعاً یہ جائز ہے یا ناجائز؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں دو کام ہوتے ہیں: مقررہ دام پر کمپنی کی اشیاء کی خریداری، اور ممبر سازی، ممبر بننے اور آئندہ ممبر بنا کر کمیشن کا حق حاصل کرنے کے لیے خریداری شرط ہے، دام کے عوض خرید و فروخت عقد بیع ہے اور ممبر سازی کر کے کمیشن حاصل کرنا عقد اجارہ ہے۔ کمپنی ممبر سازی کے لیے خریداری کی شرط رکھتی ہے یہ اجارہ بہ شرط بیع ہے اور ممبر بننے والے خریداری اس شرط پر کرتے ہیں کہ آئندہ انھیں ممبر سازی کر کے کمیشن حاصل کرنے کا حق ملے تو ان کی جانب سے یہ بیع بہ شرط اجارہ ہے۔

الف: "بیع بہ شرط اجارہ" ہو یا "اجارہ بہ شرط بیع" دونوں ناجائز ہیں اس لیے کہ حدیث شریف میں بیع مع شرط سے ممانعت آئی ہے۔

ب: کمپنی کی اشیاء اپنی کوالٹی اور معیار کے لحاظ سے کم دام کی ہوتی ہیں مگر انہیں بہت اونچے معیار کی اور زیادہ دام کی بتایا جاتا ہے۔یہ دھوکا ہوا جسے حدیث میں غش کہا گیا ہے۔ یہ ناجائز ہے۔

ج: کسی چیز کا دام دس روپے ہونا چاہیے مگر کوئی تجربہ کار اسے نو روپے کی بتاتا ہے کوئی دس روپے کی بتاتا ہے کوئی گیارہ روپے کی، اور کسی نے اسے پندرہ میں بیچا تو اسے غبن فاحش کہا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کسی ناواقف کو غبن فاحش میں ڈالنا حرام و ناجائز ہے۔

د: آئندہ ممبر بنا لینا اور کمیشن کا فائدہ پانا محض ایک امید موہوم ہے، نوے فیصد لوگ اس میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ایک طرح کی جوے بازی ہے جس میں فائدہ اور نقصان دونوں کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ جوے بازی بھی ناجائز و حرام ہے۔

ہ: پھر یہ خرابیاں ایک ہی شخص تک محدود نہیں رہتیں اگر ممبر سازی کا دائرہ بڑھتا ہے تو ان خرابیوں کا دائرہ بھی اگلے افراد تک بڑھتا جاۓ گا اور ناجائز و حرام کا ایک لمبا سلسلہ بنتا جاۓ گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کاروبار بے شمار مفاسد اور بے شمار گناہوں کے طویل سلسلے پر مشتمل ہے، اس لیے اس کے ناجائز و حرام ہونے میں کوئی شک نہیں؛ اس لیے مسلمانوں کے دین و مال کی خیریت اسی میں ہے کہ ایسے کاروبار سے بالکل دور رہیں اور اس جال میں ہرگز نہ پھنسیں"۔( ج: ۱، ص: ۳۲۵، ۳۲۶، مجلس شرعی) و اللہ اعلم
كتبه:
محمد ذیشان مصباحی، مرادآباد
دار الافتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی یوپی
۲۰ ربیع الآخر ۱۴۴۳ھ
الجواب صحیح
شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی برکاتی صاحب قبلہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.